عنوان: | ذات باری تعالیٰ سے متعلق بے جا سوالات کی وضاحت |
---|---|
تحریر: | مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ |
بعض غیر مسلم مسلمانوں کو الجھانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ سے متعلق سوالات کرتے ہیں، جیسے:
حقیقت یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی ذات سے متعلق یہ سوالات ہی غلط ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے متعلق سوال کرنا ہی بے معنی ہوتا ہے، جبکہ وہی سوال کسی اور چیز کے بارے میں کیا جائے تو درست ہوسکتا ہے۔ سوال کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین ہمیشہ "جس چیز کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے" (مسؤول عنہ) کی نوعیت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی چھوٹا بچہ، جو ابھی بولنا سیکھ رہا ہے، آپ سے یہ سوال کرے:
تو آپ کیا جواب دیں گے؟ یہی کہ یہ سوال ہی غلط ہے! بچہ اپنی کم عقلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس طرح کے سوالات کر رہا ہے۔ جیسے جیسے اس کی سمجھ بڑھے گی، وہ خود ہی جان لے گا کہ خوشبو سے متعلق اس طرح کے سوالات بے معنی ہیں۔
اسی طرح، اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق بعض سوالات انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں، اور ان کے متعلق بحث کرنا ہی بے جا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کی صفات پر ایمان لائیں، جیسا کہ قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے، اور اپنی عقل کی محدودیت کو پہچانتے ہوئے غیر ضروری سوالات سے بچیں۔
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق صحیح عقیدہ ہمیں انبیاء و رسل علیہم السلام کی تعلیمات سے معلوم ہوا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو نہ بھیجا ہوتا، تو انسان اپنی محدود عقل سے کبھی یہ نہ جان پاتا کہ:
یہ سب حقائق ہمیں وحی کے ذریعے معلوم ہوئے، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انبیاء و رسل کو بھیجا تاکہ وہ ہمیں صحیح راستہ دکھائیں۔ لہٰذا، بجائے بے جا سوالات میں الجھنے کے، ہمیں قرآن و حدیث سے ملنے والے علم پر یقین رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔