✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

شعبان المعظم اور شب برأت کی فضیلت و اہمیت

عنوان: شعبان المعظم اور شب برأت کی فضیلت و اہمیت
تحریر: کامران رضا گجراتی

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینے رجب، شعبان، رمضان اور محرم کو برگزیده بنایا۔ ان ہی میں ایک شعبان المعظم کا مہینہ ہے۔

جو بڑی ہی برکتوں اور رحمتوں والا ہے۔ یوں تو پورا مہینہ برکتوں و رفعتوں و عظمتوں والا ہے۔ مگر شعبان کی پندرہویں رات کی شان ہی نرالی ہے۔ اور وہ شب برأت ہے۔

لہذا اس عظمت والے مہینے کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس مہینے کے بارے میں ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

شَعبانُ شَهْرِي وَرَمَضانُ شَهْرُ اللهِ (جامع صغير: 4889)

ترجمہ: شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ عزوجل کا مہینہ ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرض روزوں کے بعد سب سے زیادہ روزے اسی مہینے میں رکھا کرتے تھے۔ یہ مشقت حضورﷺ نے تعلیم امت کے لیے اٹھائی۔

اسی طرح صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ شعبان المعظم کے آغاز سے ہی دنیاوی معمولات سے فراغت پاکر اپنے جسموں کو عبادات کا عادی بنانے کے لئے تلاوت قرآن، کثرت نوافل، توبہ واستغفار اور تسبیحات وتکبیرات میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔

لیکن آج ہمارا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ شعبان بلکہ بعض بدنصیب تو رمضان میں بھی عبادت، ریاضت، توبہ، استغفار، تلاوت قرآن، علم دین وغیرہ سے دور نظر آتے ہیں۔

اب ہم شعبان المعظم کے فضائل و برکات کے متعلق کچھ اہم ترین معلومات آپ کے سامنے بیان کریں گے۔ آپ سب لوگ اس پر عمل پیرا ہو کر شعبان کے فیضان سے مالامال ہوں۔

شعبان شِعْبٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں گھاٹی وغیرہ کیونکہ اس ماہ میں خیر و برکت کا عمومی نزول ہوتا ہے۔ اس لئے اسے شعبان کہا جاتا ہے، جس طرح گھاٹی پہاڑ کا راستہ ہوتی ہے اسی طرح یہ مہینہ خیر و برکت کی راہ ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص: 631 مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)

شعبان المعظم پسندیدہ مہینہ:

سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: كَانَ أَحَبُّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَصُومَهُ شَعْبَانُ، ثُمَّ يَصِلَهُ بِرَمَضَانَ۔ (ابوداؤد: 2431)

ترجمہ: حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ کا پسندیدہ مہینہ شعبان المعظم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رمضان المبارک سے ملا دیتے۔

علامہ عبدالرءوف مناوی علیہ الرحمہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: رحمتِ عالم ﷺ نے شعبانُ المعظم کو اِس لئے اپنا مہینہ فرمایا کہ آپﷺ اِس مہینے میں(کثرت سےنفل) روزے رکھا کرتے تھے حالانکہ یہ روزے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب نہیں تھے اور رمضانُ المُبارَک کو اِس لئے اللہ تعالیٰ کا مہینہ فرمایا کہ اسی نے اس مہینے کے روزے فرض فرمائے ہیں۔ (فیض القدر، ج: 4، ص: 213، حدیث: 4889)

آقا شعبان کے اکثر روزے رکھتے تھے:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ ﷺ يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، وَكَانَ يَقُولُ: خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ مَا دُوُومَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّتْ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا. (صحیح: 1970)

ترجمہ: حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ رسول الله ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے: اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ عزوجل اُس وقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔

حدیث پاک کی شرح:

شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اس تغليباً (تغ لی۔ با یعنی غلبے اور زیادت کے لحاظ سے) کل(یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کر دیا۔

جیسے کہتے ہیں: فلاں نے پوری رات عبادت کی جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اور ضروریات سے فراغت بھی کی ہو، یہاں تغلیبا اکثر کو کل کہہ دیا۔

مزید فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھے۔ البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رمضان کے روزوں پر اثر پڑے گا، یہی مَحْمَل (مراد و مقصد) ہے اُن احادیث کا جن میں فرمایا گیا کہ نصف (یعنی آدھے) شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔ (نزهة القاری، ج: 3، ص: 377، 380)

صحابۂ کرام کا جزبہ:

عن أنسِ بنِ مالكٍ رضي الله عنه أنَّه قالَ: كانَ أصحابُ النبيِّ ﷺ إذا نَظَروا إلى هِلالِ شَعبانَ أكَبُّوا على المَصاحِفِ يَقرَؤونَها، وأخرَجَ المُسلِمونَ زكاةَ أموالِهِم لِيَتَقَوَّى بِها الضَّعيفُ والمِسكينُ على صِيامِ شَهرِ رَمضانَ، ودَعا الوُلاةُ أهلَ السِّجنِ، فمَن كانَ عليهِ حدٌّ أقاموهُ عليهِ وإلَّا خَلَّوا سبيلَهُ، وانطَلَقَ التُّجَّارُ فَقَضَوا ما عليهِم وقَبَضوا ما لهُم، فكانتْ حَرَكاتُهُم وسَكَناتُهُم تَدورُ حولَ الاستِعدادِ لِشَهرِ رَمضانَ، حتَّى إذا نَظَروا إلى هِلالِ رَمضانَ اغتَسَلوا واعْتَكَفوا. (غنية الطالبين، ج: 1، ص:341 دار الكتب العلمية بیروت لبنان)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں: شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابہ کرام عليہم الرضوان تلاوت قرآن پاک کی طرف خوب متوجہ ہو جاتے، اپنے اموال کی زکوۃ نکالتے تا کہ غربا ومساکین مسلمان ماہِ رمضان کے روزوں کے لئے تیاری کر سکیں۔

حکام قیدیوں کو طلب کر کے جس پر حد(یعنی شرعی سزا) جاری کرنا ہوتی اُس پر حد قائم کرتے، بقیہ میں سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کر دیتے، تاجر اپنے قرضے ادا کر دیتے، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کر لیتے(یوں ماہِ رمضان المبارک سے قبل ہی اپنے آپ کو فارغ کر لیتے) اور رمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کر کے(بعض حضرات) اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔

ماه شعبان تلاوت قرآن کا مہینہ:

وقالَ سَلَمَةُ بنُ كُهَيلٍ: ”كانَ يُقالُ: شَهرُ شَعبانَ شَهرُ القُرَّاءِ.“ وكانَ حَبِيبُ بنُ أَبِي ثابِتٍ إذا دَخَلَ شَعبانُ قالَ: ”هذا شَهرُ القُرَّاءِ“ وكانَ عَمرُو بنُ قَيسٍ المُلاءِيُّ إذا دَخَلَ شَعبانُ، أغلَقَ حانوتَهُ وتَفَرَّغَ لِقِراءَةِ القُرآنِ. (ماذا في شعبان، ص: 44 للعلامة المحدث السيد محمد بن علوي المالكي)

ترجمہ: تابعی بزرگ حضرت سیدنا سلمہ بن كهيل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ماہِ شعبان کو تلاوت قرآن کرنے والوں کا مہینہ کہا جاتا تھا۔ حضرت سیدنا حبیب بن ابوثابت علیہ الرحمہ شعبان کے آنے پر فرماتے: یہ قاریوں کا مہینہ ہے۔

حضرت سیدنا عمرو بن قيس علیہ الرحمہ ماہِ شعبان المعظم کی آمد پر اپنی دکان بند کر دیتے اور تلاوت قرآن کریم کے لیے فارغ ہو جاتے۔

شب براءت کی فضیلت:

عن عائشةَ رضي الله عنها قالَتْ: فَقَدتُ رسولَ اللهِ ﷺ لَيلَةً، فَخَرَجتُ، فإذا هوَ بالبَقيعِ، فقالَ: أكُنتِ تَخافِينَ أنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيكِ وَرَسولُهُ؟ قُلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنِّي ظَنَنتُ أنَّكَ أتيتَ بَعضَ نِسائِكَ، فقالَ: إنَّ اللهَ يَنزِلُ لَيلَةَ النِّصفِ مِن شَعبانَ إلى السَّماءِ الدُّنيا، فَيَغفِرُ لأكثَرَ مِن عَدَدِ شَعرِ غَنَمِ كَلبٍ. (ترمذی: 739)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبی پاک ﷺ کو نہ پایا۔ میں آپﷺ کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنت البقیع میں مل گئے۔

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بےشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ شب براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنت ہے۔ (مرأة المنابح، ج: 2، ص: 290)

شب براءت اور پیارے نبی کی عبادات:

پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے پیارے نبی ﷺ شب براءت میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں عبادت فرمایا کرتے تھے۔

حدیث پاک میں ہے:

عن عائشةَ رضي الله عنها قالَتْ: "فما زالَ رسولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي قائِمًا وقاعِدًا حتَّى أصبَحَ، فأصبَحَ وقدِ اضْمَغَدَتْ قَدَماهُ، فإنِّي لأغْمِزُهُ. (الدعوات الكبير، حديث: 530)

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله عنہا فرماتی ہیں: رسولُ الله ﷺ کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر مسلسل نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی، صبح تک حضور اکرم ﷺ کے مُبارک قدم سوج گئے تھے چنانچہ میں آپ ﷺ کے قدم مبارک دبانے لگی۔

نواسۂ رسول کا شب براءت میں معمول:

عنِ الحَسَنِ بنِ عَلِيٍّ رضيَ اللهُ عنهُما عن لَيلَةِ الصَّكِّ - يَعني لَيلَةَ النِّصفِ مِن شَعبانَ وعنِ العَمَلِ فيها، فقالَ: أنا أَجعَلُها أَثلاثًا، فَثُلُثٌ أُصَلِّي فيهِ على جَدِّي النَّبِيِّ ﷺ امتِثالًا لأَمرِ اللهِ عزَّ وجلَّ، حيثُ يقولُ: «يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيهِ وَسَلِّمُوا تَسلِيمًا» (الأحزاب: 56) وثُلُثٌ أَستَغفِرُ اللهَ تعالى فيهِ مَثنَى مَثنَى لِقولِهِ تعالى: «وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَستَغفِرُونَ» (الأنفال: 33) وثُلُثٌ أَركَعُ فيهِ وأَسجُدُ امتِثالًا لِقولِهِ تعالى: «وَاسجُدْ وَاقتَرِبْ» (العلق: 19) فَقُلتُ: وَما ثَوابُ مَن فَعَلَ ذَلِكَ؟ قالَ: سَمِعتُ أَبِي يَقولُ: قالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَن أَحيا لَيلَةَ الصَّكِّ كُتِبَ مِنَ المُقَرَّبِينَ. (القول البدیع، ص 396)

ترجمہ: امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ شب براءت کے تین حصے فرماتے۔ ایک تہائی حصے میں اللہ پاک کے اس فرمان: «يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيهِ وَسَلِّمُوا تَسلِيمًا» پر عمل کرتے ہوئے اپنے نانا جان ﷺ پر درود پاک پڑھتے، اور ایک تہائی حصے میں اللہ تعالی کے اس فرمان: «وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَستَغفِرُونَ» پر عمل کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے اور آخری تہائی حصے میں اللہ پاک کے فرمان «وَاسجُدْ وَاقتَرِبْ» پر عمل کرتے ہوئے رکوع و سجود فرماتے۔ آپ رضي الله عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے ابو جان سے سنا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو نصف شعبانیعنی شب براءت کی رات کو زندہ کرے گا یعنی اُس رات عبادت کرے گا وہ مقربین میں لکھا جائے گا۔

جنت واجب ہوجاتی ہے:

عن معاذِ بنِ جَبَلٍ رضيَ اللهُ عنهُ قالَ: قالَ رسولُ اللهِ ﷺ: مَن أَحيا اللَّياليَ الخَمسَ، وَجَبَتْ لَهُ الجَنَّةُ: لَيلَةَ التَّروِيَةِ، وَلَيلَةَ عَرَفَةَ، وَلَيلَةَ النَّحرِ، وَلَيلَةَ الفِطرِ، وَلَيلَةَ النِّصفِ مِن شَعبانَ (الترغيب والترهيب، ج: 2، ص: 98، دار الكتب العلمية بیروت لبنان)

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (یعنی شب بیداری کر کے ان راتوں کو عبادت میں گزارا) اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے: (1)۔۔۔ترویہ (8 ذو الحجہ کی رات)، (2)۔۔۔عرفہ (9 ذو الحجہ کی رات) (3)۔۔۔ عید الاضحی (10 ذو الحجہ کی رات) (4) عید الفطر اور (5) نصف شعبان کی رات۔

بزرگانِ دین کے معمولات:

بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے۔

كانَ خالِدُ بنُ مَعدانَ، وَلُقمانُ بنُ عامِرٍ وغَيرُهُما يَلبَسونَ فيها أَحسَنَ ثِيابِهِم، وَيَتَبَخَّرونَ وَيَكتَحِلونَ، وَيَقومونَ في المَسجِدِ لَيلَتَهُم تِلكَ، وَوافَقَهُم إِسحاقُ بنُ راهَوَيهِ على ذَلِكَ، وَقالَ في قِيامِها في المَساجِدِ جَماعَةً: لَيسَ ذَلِكَ بِبِدعَةٍ. (ماذا فی شعبان من: 75، للعلامة المحدث السيد محمد بن علوي المالكي)

ترجمہ: حضرت خالد بن معدان، حضرت لقمان بن عامر اور دیگر بزرگان دین رحمۃ الله عليہم شعبان المعظم کی پندرہویں رات (یعنی شب براءت) کو اچھا لباس پہنتے، خوشبو سلگاتے، سرمہ لگاتے اور رات مسجد میں جمع ہو کر عبادت کیا کرتے تھے۔

حضرت اسحاق بن راہویہ علیہ الرحمہ بھی اس بات کی تائید کرتے اور اس رات مسجدوں میں اکٹھے ہو کر نفلی عبادت کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ کوئی بدعت (یعنی براکام) نہیں ہے۔

جنت سنواری جاتی ہے:

ورُوِيَ عن كَعبٍ رحمهُ اللهُ تعالى قالَ: إنَّ اللهَ تعالى يَبعَثُ لَيلَةَ النِّصفِ مِن شَعبانَ جِبرِيلَ إلى الجَنَّةِ، فَيَأمُرُها أنْ تَتَزَيَّنَ، وَيَقولُ: إنَّ اللهَ تعالى قدْ أَعتَقَ في لَيلَتِكَ هذِهِ عَدَدَ نُجُومِ السَّماءِ، وَعَدَدَ أَيَّامِ الدُّنيا وَلَيالِيها، وَعَدَدَ وَرَقِ الشَّجَرِ، وَوَزنَةَ الجِبالِ، وَعَدَدَ الرِّمالِ. (ماذا فی شعبان، ص: 87، للعلامة المحدث السيد محمد بن علوي المالكي)

ترجمہ: حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک شعبان کی پندرہویں رات حضرت جبریل عليہ السلام کو جنت کی طرف بھیجتا ہے، وہ جنت کو آراستہ ہونے کا حکم دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: اللہ پاک نے تیری اس رات میں آسمانوں کے ستاروں، دنیاوی دنوں اور راتوں، درختوں کے پتوں، پہاڑوں کے وزن اور ریت کے ذروں کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد فرما دیا ہے۔

حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمہ مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: کہ جس طرح اہل ایمان کے لئے عید الفطر اور عید الاضحی کی چاند رات مسرت و شادمانی کا باعث ہوتی ہیں۔ اسی طرح فرشتوں کے لئے بھی دو راتیں عید کی رات کہلاتی ہیں اور وہ دو راتیں شب برأت (15 شعبان) اور لیلۃ القدر کی راتیں ہوتی ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص:632 مکتبہ المدینہ دعوت اسلامی)

اپنے مرحومین کو بھی یاد رکھئے:

حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ الله عليہ نقل فرماتے ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہے۔ جب عید کا دن، (ذوالحجہ کا)دسواں دن، ماہ رجب کا پہلا جمعہ، شب براءت (شعبان کی نصف) اور جمعہ کی رات آتی ہے تو اموات (مومن مردے)اپنی قبور سے نکل کر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری طرف سے اس رات صدقہ کرو اگرچہ روٹی کا ایک لقمہ ہی دو، کیونکہ ہم اس کے ضرورت مند ہیں۔ اگر وہ کچھ صدقہ نہ کریں تو بڑے افسوس سے لوٹتے ہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: 14، ص: 694، رضا فاؤنڈیشن)

پیارے اسلامی بھائیو! شب براءت میں اپنے اُن پیاروں کو بھی یاد رکھیں جو دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اپنے مرحومین کو یاد رکھنے بلکہ ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس رحمتوں اور مغفرتوں والی رات میں نیاز دلا کر اُن کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کیا جائے۔

اللہ تعالی ہم سب کو اس ماہ کی برکتیں عطا فرمائے اور اس ماہ میں ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں