✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

علاج انجینئر سے کروائیں اور فتویٰ پلمبر سے لیں تو انجام؟

عنوان: علاج انجینئر سے کروائیں اور فتویٰ پلمبر سے لیں تو انجام؟
تحریر: مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ

دہلی کے ایک صاحب کو شدید سردی کا لطف لینے کی خواہش ہوئی، چنانچہ وہ دسمبر میں کشمیر جا پہنچے۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ زبردست برف باری شروع ہوگئی، راستے بند ہوگئے، اور درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی نیچے چلا گیا۔ وہ جہاں گئے تھے، وہیں پھنس کر رہ گئے۔

اتفاق سے انہی دنوں ایک مشہور امریکی ڈاکٹر بھی وہاں آئے ہوئے تھے، اور وہ بھی برف باری میں محصور ہوگئے۔ اسی دوران ایک کشمیری نوجوان کی طبیعت سخت خراب ہوگئی تیز بخار 104 ڈگری سے نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

مقامی لوگوں نے امریکی ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب مریض کو دیکھنے چلے تو دہلی والے صاحب بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔

معائنے کے بعد پتا چلا کہ مریض کا بلڈ پریشر بہت کم ہے اور بخار شدید ہے۔ ڈاکٹر نے دوا تجویز کی اور ساتھ ہی ہدایت دی کہ مریض کو پانچ موٹے کمبل اوڑھا دیے جائیں تاکہ وہ اچھی طرح ڈھک جائے۔ ابھی ایک دن ہی دوا کھائی تھی کہ طبیعت کافی بہتر ہوگئی، بلڈ پریشر بھی نارمل ہوگیا۔

جب ڈاکٹر صاحب کو اس کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے فوراً نئی دوا لکھی اور سختی سے پہلی دوا بند کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ کمبل ہٹانے کی ضرورت نہیں۔ تین دن میں مریض مکمل صحت یاب ہوگیا۔

دہلی والے صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اتنی شدید بیماری کا علاج امریکی ڈاکٹر نے کتنی آسانی سے کردیا! وہ بھی ڈاکٹر کے معتقد ہوگئے اور مریض کی نسخے والی پرچی لے لی۔

کچھ دن بعد برف باری رک گئی، امریکی ڈاکٹر واپس چلے گئے، اور دہلی والے صاحب بھی اپنے شہر لوٹ آئے۔ جب گھر پہنچے تو ہر مجلس میں امریکی ڈاکٹر کے قصیدے پڑھنے لگے، ہر وقت اس کا ذکر کرتے۔

ان کا ایک دوست بھی ڈاکٹر کی تعریف سن سن کر متاثر ہونے لگا۔ ایک دن دہلی والے صاحب نے فخریہ انداز میں ڈاکٹر کا لکھا ہوا نسخہ اپنے دوست کو دکھایا۔ اس دوست نے کہا کہ میں بھی اسے اپنے گھر والوں کو دکھاتا ہوں، اور وہ پرچی لے کر چلا گیا۔ مگر وہ اسے اپنے پرس میں رکھ کر بھول گیا۔

اب جون کا مہینہ آیا۔ دہلی والے صاحب کے دوست کو خیال آیا کہ کیوں نہ سخت گرمی میں راجستھان کے شہر جیسلمیر کی سیر کی جائے۔ ٹکٹ لیا اور روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچے تو شدید گرمی تھی درجہ حرارت 50 ڈگری سے تجاوز کر چکا تھا۔

انہی دنوں وہاں ایک مقامی بوڑھے شخص کو لو لگ گئی، شدید بخار چڑھ گیا، جو 104 ڈگری سے کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کا بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ گیا۔ لوگ سخت پریشان ہوئے کہ کیا کریں۔

جب ان صاحب کو معلوم ہوا کہ ایک شخص کو 104 ڈگری بخار ہوگیا ہے، تو فوراً اپنا پرس نکالا اور وہی امریکی ڈاکٹر والا پرچہ تلاش کرلیا۔ اعتماد سے بولے، میں علاج کرتا ہوں! یہ ایک ماہر امریکی ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوا ہے۔ انہیں اتنی انگریزی تو آتی تھی کہ نسخے کو سمجھ سکیں۔ انہوں نے اعلان کیا، اس میں لکھا ہے کہ یہ دوا دس دن تک دینی ہے اور مریض کو پانچ کمبل اسی طرح اوڑھائے رکھنا ہے۔

کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ نسخہ ایک کشمیری جوان مریض کے لیے تھا، جو دسمبر کی شدید سردی میں مبتلا تھا، جس کا بلڈ پریشر کم تھا۔ یہاں صورتِ حال بالکل مختلف تھی، بوڑھے مریض کو لو لگی تھی، اور بلڈ پریشر بلند تھا۔ ابھی پہلا چمچ دوا ہی پلایا تھا اور کمبل اوڑھانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ مریض کا جسم ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہوگیا۔

یہی حال بلکہ اس سے بدرجہا بدتر آج کل غیر مقلدین کا ہے! یہ لوگ نہ تو ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرتے ہیں، نہ تمام احادیثِ مبارکہ ان کے پیش نظر ہوتی ہیں، نہ قرآنِ مجید کے احکام کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان احکام کو کس طرح سمجھا تھا، نہ ہی یہ غور کرتے ہیں کہ دورِ رسالت سے آج تک مسلمان کسی مسئلے پر کیسے عمل کرتے آئے ہیں۔ یہ لوگ ظاہر، نص، مفسر اور محکم، مجاز، حقیقت، عام، خاص جیسے بنیادی اصولوں پر بھی غور نہیں کرتے اور ہر مسئلے میں اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر غیر مقلدین کے طریقۂ کار کا جائزہ لیا جائے تو ان کی بنیاد تین چیزوں پر قائم نظر آتی ہے:

مسلمانوں کے طریقے سے الگ ہونا: یعنی امت کے اجماعی راستے کو چھوڑ کر اپنی نئی راہ اختیار کرنا۔

کوئی نیا فتنہ پیدا کرنا: یعنی ہر دور میں کوئی نئی بدعت اور نیا مسئلہ چھیڑنا تاکہ امت میں انتشار پیدا ہو۔

اپنی نفس کی خواہش کے مطابق عمل کرنا: یعنی جو بات ان کے مزاج اور نفس پر بھاری ہو، اسے ترک کر دینا، مثلاً بیس رکعت تراویح کے بجائے آٹھ رکعت، تین رکعت وتر کے بجائے ایک رکعت، نیز ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک قرار دینا وغیرہ، اور بھی بہت کچھ، بلکہ ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق دین کے احکام کی تشریح کرنا۔

یہی وجہ ہے کہ غیر مقلدین کے عقائد و نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں کوئی مستقل اصول نہیں، بلکہ جہاں جو چیز ان کے فائدے کی ہو، وہیں اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

فقہ کے اصولوں کو سمجھے بغیر اجتہاد کا دعویٰ کرنا، احادیث کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر اپنی مرضی کی تشریحات کرنا، اور ائمہ کرام کی محنت کو نظر انداز کر کے صرف ظاہری الفاظ کو بنیاد بنا لینا یہی غیر مقلدین کا طریقہ ہے، جو امت میں گمراہی اور انتشار کا سبب بنتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا (بخاری: 100)

ترجمہ: لوگ جاہلوں کو اپنا رہنما بنا لیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

لوگوں کی سادگی کہیے یا غیر ذمہ داری اور بے حسی لوگوں کا بھی عجیب حال ہے کہ دین کے معاملے میں جو نیا نظر آیا، اسی کے پیچھے چل پڑے، نہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس شخص نے کہاں سے علم حاصل کیا ہے، نہ اس کے عقائد و نظریات کا جائزہ لیا، نہ یہ سوچا کہ کہیں اسے کسی خاص مقصد کے تحت تو نہیں کھڑا کیا گیا؟

یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ: اس مسئلے پر کتنی احادیث ہیں؟ اگر دیگر احادیث موجود ہیں تو صرف اسی حدیث کو کیوں اختیار کیا گیا؟ امتِ مسلمہ صدیوں سے جس طریقے پر عمل کر رہی ہے، وہ کیوں چھوڑ دیا جائے؟

حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعَ عَلَى ضَلَالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ. (ابن ماجہ: 3950)

ترجمہ: میری امت کبھی کسی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی،جب اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کی پیروی کرو۔

تمام مسلمانوں سے اہم اپیل ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا نیا مسئلہ پیش کرتا ہے جو امتِ مسلمہ کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے، تو فوراً علمائے اہلِ سنت سے رجوع کریں۔ ان شاء اللہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ نیا مسئلہ بدعت ہے، چاہے پیش کرنے والا حدیث کا حوالہ ہی کیوں نہ دے رہا ہو

ضروری ہے کہ دین کو اس کے اصل ماخذوں سے، صحیح فہم کے ساتھ، مستند فقہاء کی رہنمائی میں سمجھا جائے، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لاعلمی میں ہم کسی کا علاج کرنے چلیں اور اس کی زندگی ہی ختم کر بیٹھیں۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں علمائے حق کے طریقے پر چلنے اور غیر مقلدین کے فتنوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں