عنوان: | محنت + ایمانداری + ہنر = کامیابی |
---|---|
تحریر: | مولانا خلیل احمد فیضانی |
کامیابی کے حصول کے لیے جہاں دل سے لگن، سچا جذبہ، ایثار و صبر کا ہونا ضروری ہے، وہیں سخت جدوجہد و جانفشانی، کردار کی پاکیزگی، معاملات میں ایمانداری اور مختلف صلاحیتوں سے آراستہ ہونا بھی نہایت لازمی ہے۔
جس طرح کوئی بھی شخص محض ہنر کی بنیاد پر بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا، ٹھیک اسی طرح کوئی شخص صرف محنت کی بنیاد پر بھی اپنا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کر سکتا:
بلکہ کامیابی کے حصول کے لیے ڈھنگ سے کوشش کے ساتھ ساتھ دیانت داری اور مختلف اسکلز سے آراستہ ہونا بھی نہایت ناگزیر ہوتا ہے۔
ان تینوں(محنت، ایمانداری اور ہنر) کو سمجھنے اور اس فارمولے کو عملی زندگی میں اتارنے کے لیے ایک ترغیبی قصہ (Motivational Story) پیش خدمت ہے۔ اسے پڑھیں اور عمل کرنے کی ہر ممکن سعی ضرور کریں۔
یونیورسٹی کا ایک پروفیسر صبح کے وقت اس کے کھوکھے سے چائے پیتا تھا۔ وہ بچے کی محنت پر خوش تھا۔ وہ اسے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سکھاتا تھا۔
جہانگیر نے ایک دن پروفیسر سے پوچھا ماسٹر صاحب! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں؟
پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا: دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے۔
جہانگیر کا اگلا سوال تھا، کیسے؟
پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا، جہانگیر کے کھوکھے کے پاس پہنچا اور دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں۔ پہلی لکیر پر محنت، محنت اور محنت لکھا،دوسری لکیر پر ایمانداری، ایمانداری اور ایمانداری لکھا،اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر (Skill) لکھا۔
جہانگیر پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد جہانگیر کی طرف مڑا اور بولا: ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں۔ پہلا زینہ محنت ہے۔ آپ جو بھی ہیں، اگر آپ صبح، دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے۔
آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان، فیکٹری، دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہیے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہیے۔ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔
پروفیسر نے کہا: ہمارے گرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں، یہ محنت نہیں کرتے۔ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں، آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں۔ آپ ترقی کے لیے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔
اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے۔ ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے: وعدے کی پابندی، جھوٹ سے نفرت، زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔
آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ وعدہ کرو تو پورا کرو، جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو، زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی، کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو۔ تم ایماندار ہو جاؤ گے۔
کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے۔ آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں۔ آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے۔
اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد، تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے، آپ کا پروفیشنل ازم، آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا۔آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے۔
پروفیسر نے جہانگیر کو بتایا، لیکن یہ یاد رکھو، ہنر، پروفیشنل ازم اور اسکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے۔آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں ایسا نہیں کو سکتا۔
بلکہ آپ کو محنت ہی سے اسٹارٹ لینا ہو گا، ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا، آخر میں خود کو ہنرمند ثابت کرنا ہو گا۔
پروفیسر نے مزید کہا: میں نے دنیا کے بے شمار ہنرمندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا، کیوں؟ کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی۔
اور میں نے دنیا کے بے شمار بے ہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا۔تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو، تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے۔
جہانگیر نے لمبا سانس لیا اور بولا، میں نے چاک سے بنی ان تین لکیروں کو اپنا مذہب بنا لیا اور میں 45 سال کی عمر میں ارب پتی ہو گیا۔
جہانگیر نے بتایا: کھوکھے کی وہ دیوار اور اس دیوار کی وہ تین لکیریں آج بھی میرے دفتر میں میری کرسی کے پیچھے لگی ہیں۔میں دن میں بیسیوں مرتبہ وہ لکیریں دیکھتا ہوں اور پروفیسر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
جہانگیر خاموش ہو گیا۔ سورج نے جھیل میں ڈبکی لگا دی۔ شام رات میں تبدیل ہونے لگی۔جہانگیر کے گھر سے شام کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ گھر کی ساری کھڑکیاں پینٹنگ بن چکی تھیں اور ہر پینٹنگ منہ کھول کر سانس لے رہی تھی،
جہانگیر کی کامیابی کی تین لکیروں کی طرح بیان کردہ سطریں زندگی بدل ثابت ہو سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔