عنوان: | اپنے منصب کا حق ادا کریں |
---|---|
تحریر: | محمد الطاف رضا اشرفی |
حسنِ اخلاق کا ایک اہم حصہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانا ہے۔ جو خود کی اور اپنے ماتحتوں کی فکر کرتے ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں۔ جب بھی اپنے سے نیچے والوں کی بات آتی ہے تو کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے ساتھ جیسا چاہو سلوک کرو، یہ ہمارے زیرِ حکم ہیں، لیکن ہماری شریعت تو کچھ اور ہی تعلیم دیتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الاِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤُوْلَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، جلد: 5، حدیث نمبر: 653)
ترجمہ: حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: میں نے رسولِ اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے اُس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جسے لوگوں پر امیر بنایا گیا، وہ نگہبان ہے، اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے، اُس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے، وہ اس بارے میں جواب دہ ہوگی۔ خادم اپنے آقا کے مال پر نگہبان ہے، اُس سے اِس بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے تمہارے ماتحتوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔
اس حدیثِ پاک سے روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے منصب کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جن پر ہمارا حکم چلتا ہے، اُن کے بارے میں ہم سے پرسش بھی ہوگی۔
اگر ہم سب اپنے منصب کا حق ادا کرنے والے ہو جائیں تو معاشرہ بہت خوش نما ہو جائے گا۔ ہم سب کو اپنے ماتحتوں کے حقوق کا لازمی طور پر خیال رکھنا چاہیے۔
ہم میں سے کوئی بھی اگر اپنے ماتحتوں کے بارے میں غفلت کا شکار ہے تو خدا سے ڈرے اور آج ہی توبہ کرے۔ جس کے بھی نیچے کوئی ہے، اسے چاہیے کہ اُس کے معاملے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے۔ کوئی سربراہ ہرگز اپنے ماتحتوں کے بارے میں یہ نہ سوچے کہ میں جیسا چاہوں گا، اپنے نیچے والوں کے ساتھ معاملہ کروں گا۔
جناب! جو آپ کے زیرِ حکم ہیں، وہ لاوارث نہیں ہیں۔ اُن کا اگر کوئی بظاہر نہ بھی ہو تو خدا تو ضرور ہے، جس نے سب کے حقوق مقرر کر دیے ہیں اور کوئی بھی ظالم ربِّ قہار کی پکڑ سے باہر نہیں۔
حکمران پر لازم ہے کہ اپنی رعایا کا خیال رکھے۔ ماں باپ پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں، اُن کے ساتھ عدل و انصاف کریں۔ شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کے حقوق کا خیال رکھے اور اُس پر ظلم و ستم نہ کرے۔
عورت پر ضروری ہے کہ شوہر کے گھر کو اپنا گھر سمجھے اور اپنے ماتحتوں یعنی بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت میں کوتاہی نہ کرے۔ گھر کے نوکر کو مالک کے مال و اسباب کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی کسی کمپنی کا مالک ہے تو اُسے اپنے ملازمین کے بارے میں خوفِ خدا رکھنا ہوگا۔ المختصر، کسی بھی شخص کا اگر کوئی بھی تابع فرمان ہے تو اُسے اُس کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
اگر کوئی اکیلا ہے، اس کے متعلقین نہیں، تب بھی وہ ذمہ دار ہے۔ جی ہاں! وہ اپنی ذات کا ذمہ دار ہے۔ اپنے اعضا کی حفاظت و اصلاح اس پر لازم ہے۔ اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے، اپنے اعضا کو شریعت کے حدود میں استعمال کرے۔
اللّٰہ ہمیں اعلیٰ کردار عطا فرمائے، اپنے عہدے کو بخوبی نبھانے کی توفیق دے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم۔