✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

حق اور باطل میں فرق

عنوان: حق اور باطل میں فرق
تحریر: الماس نوری عطاری، جامعۃ المدینہ مڈاسا

حق اور باطل میں فرق الماس نوری عطاری متعلّم: جامعۃ المدینہ، فیضانِ مخدوم، لاہور، مڈاسہ، گجرات تاریخ: ۷ مارچ ۲۰۲۵

بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ، بھائی! سب ٹھیک ہیں، دیوبندی لوگ بھی تو نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، دین کا کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تو ان کی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ، پیارے بھائی! چور کبھی ظاہر نہیں کرتا کہ وہ چور ہے۔ چور اپنے آپ کو ایسا بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے کہ کوئی گمان ہی نہ کر پائے کہ وہ چور ہے۔

جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان کی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ ایک بار آپ ان لوگوں کی وہ عبارتوں کا بغور مطالعہ کریں، جن میں انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ، حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام، ملائکہ اور انبیاءِ کرام کی شان میں کیسی کیسی گستاخیاں کی ہیں۔ تو اگر آپ انصاف بھرے دل سے مطالعہ کریں گے تو آپ یقیناً ان کو گمراہ کہیں گے۔

اور ہمارا دیوبندیوں یا ان جیسے لوگوں سے جو اختلاف ہے، وہ اس وجہ سے تھوڑی نہ ہے کہ یہ لوگ فاتحہ نہیں کرتے، سلام نہیں پڑھتے۔بلکہ ان لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف اور صرف انہی عبارتوں کی وجہ سے ہے، جن عبارتوں میں انہوں نے صریح اور واضح طور پر انبیاءِ کرام، صحابۂ کرام اور اولیاءِ کرام کی شان میں گستاخی کی ہے۔

اب دیوبندی حضرات اور اہلِ سنّت کا مسلک ملاحظہ فرما کر حق و باطل میں خود ہی فرق کریں۔

دیوبندیوں کا مذہب

اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ، ج: 1، ص: 19)

شیطان اور ملک الموت کا علم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے، اور شیطان کو پورے روئے زمین کا علم حاصل ہے، یہ دلیلِ شرعی سے ثابت ہے، اور حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے اس کو ثابت کرنا شرک ہے۔ (براہینِ قاطعہ، ص: 51)

اشرف علی تھانوی نے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علمِ غیب کو زید، عمر، بچوں، پاگلوں بلکہ تمام حیوانات اور جانوروں کے علم کی طرح بتایا۔ (حفظ الایمان، ص: 8)

نماز میں حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دل میں خیال لانا، بیل اور گدھے کے خیال میں ڈوبنے سے بھی بدتر ہے۔ (صراطِ مستقیم، ص: 86)

قرآنِ پاک میں مذکور «خاتم النبیین» کا معنیٰ آخری نبی مراد لینا یہ عوام کا خیال ہے، یعنی حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں یا حضور کے بعد بھی اگر کوئی نبی ہو جائے تو بھی حضور کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (تحذیر الناس، ص: 3)

اہلِ سنّت و جماعت کا مذہب:

اللہ تعالیٰ کے لیے جھوٹ کو ممکن سمجھنا شانِ الوہیت میں گستاخی ہے، اہلِ سنّت کے نزدیک ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔

شیطان اور ملک الموت کے لیے پورے روئے زمین کا علم ثابت کرنا، اور حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کی نفی کرنا بارگاہِ رسالت میں سخت ترین گستاخی ہے۔

اور یہ کہنا کہ شیطان اور ملک الموت کے لیے پورے روئے زمین کا علم ثابت ہونے پر دلیلِ شرعی بھی موجود ہے، یہ قرآن و حدیث پر سخت جھوٹ باندھنا ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں۔

حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم تمام کائنات کے علم سے ممتاز ہے، اور حضور کے علم کو پاگلوں، بچوں اور جانوروں کے علم کی طرح بتانا بارگاہِ رسالت میں سخت ترین توہین ہے۔

حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نماز میں خیال لانا، یہ نماز کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ بندہ تشہد میں «السلام علیک أیها النبي» پڑھتا ہے، جو کہ واجب ہے۔

اور حضور کے خیال کو گدھے اور بیل کے تصور سے بدتر قرار دینے والا خود ہی بدترین اور گستاخِ رسول ہے، ایسے شخص کو اہلِ سنّت جہنمی اور ملعون قرار دیتے ہیں۔

قرآن میں مذکور «خاتم النبیین» سے آخری نبی مراد ہے، اس پر اجماعِ امت ہے، یعنی تمام امت کے علماء اس پر متفق ہیں۔

پیارے بھائیو! یہ چند عقائد اہلِ سنّت اور دیوبندی حضرات کے پیش کیے گئے، اس کے علاوہ بہت سے بدترین ان کے عقائد ہیں، جو مختصر مضمون میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ان کی اصل کتابوں سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔

اب آپ خود ہی بتائیں، حضور کی شان میں اتنے گستاخانہ کلمات کہنے والے کو ہم اچھا کہیں گے؟ ان کے ساتھ رہیں گے؟ نہیں! بلکہ ان سے دوری اختیار کریں گے، جس طرح آگ سے دور رہا جاتا ہے۔

کیونکہ آگ تو انسان کے بدن کو جلاتی ہے، اور اگر بندہ جل بھی جائے تو کچھ دوا وغیرہ کے بعد وہ ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن اگر ان کی صحبت سے ہمارے عقائد جل گئے، ہمارے عقائد خراب ہو گئے، تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا پڑے گا۔

اور یقیناً دنیاوی آگ سے کئی کروڑ گنا زیادہ خطرناک جہنم کی آگ ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان کو حضور سے سچی محبت کرنی چاہیے۔

اور قرآنِ پاک میں تو تعظیم اور محبتِ رسول کو ایمان اور عبادت کی مقبولیت کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے:

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ، لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا (الفتح: 8-9)

ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔

مسلمانو! دیکھو، دینِ اسلام بھیجنے، قرآنِ مجید اتارنے کا مقصود ہی یہی ہے لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائیں۔اور رسولُ اللہ ﷺ کی تعظیم کریں۔ نیز کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہیں۔

مسلمانو! ان جلیل باتوں کی جمیل (خوبصورت) ترتیب تو دیکھو کہ سب سے پہلا مقصد ایمان کو فرمایا اور سب سے آخر میں اپنی عبادت کو، اور بیچ میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کی تعظیم کو۔

اس لیے کہ بغیر ایمان، تعظیمِ رسول کچھ کام کی نہیں، کیونکہ بہت سے عیسائی ایسے ہیں کہ نبی ﷺ کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور حضور پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں کتابیں لکھ چکے اور لیکچر دے چکے، مگر جبکہ ایمان نہ لائے تو کچھ مفید نہیں۔

یہ ظاہری تعظیم ہوئی، اگر دل میں حضورِ اقدس ﷺ کی سچی عظمت ہوتی تو ضرور ایمان لاتے۔ پھر جب تک نبی ﷺ کی سچی تعظیم نہ ہو، عمر بھر عبادتِ الٰہی میں گزارے ہوئے لمحات سب بیکار اور مردود ہیں، کیونکہ بہت سے جوگی اور راہب ترکِ دنیا کرکے اپنے طور پر ذکر و عبادتِ الٰہی میں عمر کاٹ دیتے ہیں، بلکہ ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں، مگر مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے۔ ان کی یہ عبادت بالکل بھی بارگاہِ الٰہی میں قبول نہیں۔

اللہ عز و جل ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:

وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا (الفرقان: 23)

ترجمہ کنز الایمان: اور جو کچھ انہوں نے کام کیے تھےہم نے قصد فرماکر اُنہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرّے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔

ایسوں ہی کے بارے میں فرمایا گیا:

عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ، تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً (الغاشیہ: 3-4)

ترجمہ کنز الایمان: کام کریں مشقت جھیلیں۔ جائیں بھڑکتی آگ میں۔

مسلمانو! حضور اکرم ﷺ کی تعظیم ایمان، نجات اور قبولِ اعمال کے لیے ضروری ہوئی یا نہیں؟ ہوئی اور ضرور ہوئی!

اللہ عز و جل فرماتا ہے:

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اِ۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تخْشَوْنَ كَسادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ (التوبہ: 24)

ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز، اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے۔ اسے اللہ اپنی طرف راہ نہ دے گا اور اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ سے سچی محبت عطا فرمائے اور گستاخانِ رسول سے بچائے۔ آمین بجاہِ النبی الأمین ﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں