عنوان: | حضور سید آل رسول مارہروی کی علمی و ملی خدمات |
---|---|
تحریر: | محمد علاء الدین قادری مصباحی بلرام پور |
حضرت سید محمد صغریٰ علیہ الرحمہ ساداتِ زیدیہ بلگرام کے مورث اعلیٰ ہیں۔ آپ کی گیارہویں پشت میں حضرت سید میر عبدالواجد بلگرامی قدس سرہٗ ہیں۔ آپ کے شہزادے حضرت سید میر عبدالجلیل چشتی بلگرامی علیہ الرحمہ بلگرام سے ہجرت کرکے مارہرہ کو اپنا وطن بنایا اور آج یہیں آرام فرما رہے ہیں۔ (تذکرۂ شمس مارہرہ، ص:12)
اس شہر میں آپ کے قدم رنجہ ہونے کے بعد یہ سرزمین فیوض و برکات اور علم و معرفت کا گہوارہ بن گئی۔ آپ کے دامنِ فیض سے وابستہ کئی خوش نصیب حضرات نے اپنے دامن کو گوہرِ مراد سے بھر لیا اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہوئے۔ آپ کی آئندہ نسلوں نے تاریکی میں بھٹکنے والوں کو روشنی فراہم کی اور ہزاروں گم گشتہ افراد کے نورِ ایمان کا ذریعہ بنے۔
ان ہی قدآور خدا شناس حضرات میں خاتم الاکابر، حضور سید آل رسول احمدی برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ کی ذات ہے۔ آپ روحانیت کے باب میں برصغیر ہندوپاک میں یکساں طور پر مشہور و معروف ہیں۔ آپ نے بےشمار تاریک دلوں میں ہدایت کی شمع روشن کی، زندگی سے بیزار لوگوں کو مقصدِ حیات سے آگاہ کرکے ان کا رشتہ خالقِ حقیقی سے جوڑ دیا اور زندگی کو پُرلطف بنا دیا۔
ولادت، تحصیل علومِ دینیہ اور اجازت و خلافت
آپ کی ولادتِ باسعادت مارہرہ شریف میں بتاریخ رجب المرجب 1209ھ/ 1795ء کو ہوئی۔ حضور شمس مارہرہ علیہ الرحمہ کی آپ پر خصوصی توجہ رہی، اور آپ ہی کے سایۂ کرم میں تعلیمی مراحل طے کیے۔ حضرت شاہ عین الحق بدایونی، حضرت علامہ عبدالمجید بدایونی اور حضرت علامہ شاہ سلامت اللہ کشفی بدایونی رحمہم اللہ تعالیٰ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کی غرض سے لکھنؤ کا سفر کیا اور حضرت مولانا نور الحق ابن احمد اور حضرت مولانا انوار الحق فرنگی محلی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا۔
والدِ بزرگوار حضرت سید شاہ آل برکات ستھرے میاں علیہ الرحمہ اور حکیم فرزند علی خاں موہانی سے علماً و عملاً فنِ طب حاصل کیا۔
حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ سے تحصیلِ حدیث کی خاطر دہلی کا سفر کیا، سماعتِ حدیث کے بعد محدثِ دہلی علیہ الرحمہ سے سندِ حدیث کے علاوہ دیگر اعمال کی اجازت حاصل کی۔ جملہ ظاہری علوم و فنون سے فراغت کے بعد ردولی شریف میں آپ کے سر پر دستارِ فضیلت کا تاج زریں سجایا گیا۔
علومِ باطنیہ حضور شمس مارہرہ علیہ الرحمہ اور والد ماجد کی خدمت میں رہ کر حاصل کیے اور منازلِ سلوک طے کیے۔ حضور شمس مارہرہ علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت حاصل کی، والدِ گرامی نے بھی آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز کیا۔ (تذکرۂ شمس مارہرہ، ص:55)
علمی خدمات
درس و تدریس، تصنیف و تالیف، اور تقریر و خطابت وغیرہ، اشاعتِ اسلام کے مختلف ذرائع ہیں۔ تاریخِ اسلام کی ورق گردانی سے یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں نے دینِ اسلام کی مختلف طریقوں سے آبیاری فرمائی ہے، جن میں بعض اپنے میدان کے ماہر، حاذق، اور مشہور و معروف ہیں۔
حضور خاتم الاکابر علیہ الرحمہ میدانِ تصوف میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ نے تصوف کے ذریعے امتِ مسلمہ کی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور مردہ دلوں میں روحِ ایمان ڈال دی۔ ہزاروں لوگوں کو باطنی امراض سے شفا عطا کی اور گناہوں میں ملوث سیاہ دلوں کو پاک و صاف کرکے نورِ الٰہی سے منور کردیا۔
آپ کے مریدین و خلفا میں یکتائے روزگار ہستیاں موجود ہیں، جن میں چند مشاہیر علما یہ ہیں:
یہ چند نفوسِ قدسیہ ہیں جنھوں نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا۔ اس طرح آج بھی آپ کا فیضان جاری و ساری ہے اور آپ کے سر چشمۂ عرفان سے ہزاروں لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔
قلمی خدمات
اللہ تعالیٰ کے فرمان «نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ» سے ہی قلم کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے تصوف کے علاوہ میدانِ تصنیف و تالیف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
آپ نے وقت اور حالات کے پیشِ نظر تقریباً ایک درجن کتابیں تصنیف فرمائیں، جن میں چند یہ ہیں:
«خطبہ جمعہ» «مختصر تاریخ اول/دوم» «اخلاق کی تعلیم» «رموز حمزہ» «دیوبندیوں کا پاکیزہ فوٹو گراف» «تحریک امارت شرعیہ پر ایک نظر» «سیرت کمیٹی کا اسلام» «شموع الانوار» «لاہور کا مناظرہ» «رؤیت ہلال کا فتویٰ» «ملی خدمات»
بزرگانِ دین کی زندگی اسوۂ نبوی کی عکس جمیل ہوتی ہے، کیونکہ سیرتِ طیبہ پر عمل کیے بغیر ایمانِ کامل کا تصور ہی نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:21)
ترجمہ کنز الایمان :بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے
آپ کی زندگی حیاتِ نبوی کی آئینہ دار تھی۔ حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا، پریشان حال کی دادرسی کرنا، یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھنا، اور بیواؤں و خستہ حال لوگوں کی مدد کرنا آپ کے عمدہ اوصاف تھے۔
تعمیری اور انتظامی امور
آپ کے مشورے سے ہی درگاہ کی انتظامیہ کمیٹی قائم ہوئی۔ مدارس، مکانات، اور علما و فقرا کے لیے حجرے تعمیر کرائے۔ امام، مؤذن، اور درگاہ کا حساب رکھنے کے لیے ایک نگران مقرر کیا۔
درگاہ کے معاملات، عرس کا انتظام، اور مہمان نوازی سب حضرت خود فرماتے۔ عرس بہت سادگی سے منعقد ہوتا، جس میں نعت، منقبت، ختمِ قرآن، دلائل الخیرات، اور لنگر شامل تھے۔ فضول رسم و رواج سے سخت پرہیز کرتے اور ہمیشہ شریعت کی پاسداری فرماتے۔
یہ چند سطور حضور خاتم الاکابر علیہ الرحمہ کی غیر معمولی خدمات کے بیان میں تحریر کی گئی ہیں۔ آپ کے چشمۂ علم و معرفت سے آج بھی ایک جہان فیض یاب ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کے فیوض و برکات سے مستفیض فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔