✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

تصنیفاتِ حضور غوث اعظم کا مطالعاتی جائزہ

عنوان: تصنیفاتِ حضور غوث اعظم کا مطالعاتی جائزہ
تحریر: محمد علاء الدین قادری مصباحی بلرام پور

اللہ تعالیٰ انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس جماعت کو یکے بعد دیگرے بھیجتا رہا: یہاں تک کہ حضور ﷺ کے سر پر ختمِ نبوت کا تاج سجا کر مبعوث فرمایا۔

بابِ نبوت کے بند ہو جانے کے بعد رشد و ہدایت کی ذمہ داری اِس امت کے اولیائے کاملین اور علمائے ربانیین کے سپرد کر دی گئی، جو حضور ﷺ کے بظاہر دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے آج تک امت کی اصلاح اور رہبری و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ان شاءاللہ تا صبحِ قیامت دیتے رہیں گے۔

اسی نورانی قافلے میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم ہستی بھی جلوہ فرما ہے، جن کی ہمہ جہت کارکردگی کا ایک جہاں معترف ہے۔

عقیدت مند آپ کو حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

اسلام کی نشر و اشاعت اور امت کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے آپ کی بے شمار خدمات ہیں۔ آپ نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں قابلِ تقلید کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ آپ نے امت کی اصلاح کی خاطر کئی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں۔ برحکمِ امتثال، آپ کی تصنیفات کے متعلق چند سطور ہدیۂ قارئین ہیں۔

غنیۃ الطالبین: یہ آپ کی مشہورِ زمانہ کتاب ہے۔ اگرچہ بعض لوگ اس کی نسبت آپ کی طرف غلط قرار دیتے ہیں، لیکن حضور اعلیٰ حضرت محدثِ بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

کتاب غنیۃ الطالبین شریف کی نسبت حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ خیال ہے کہ وہ سرے سے حضور پُرنور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی تصنیف ہی نہیں؛ مگر یہ نفی مجرد ہے۔

اور امام حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی کہ اس کتاب میں بعض مستحقینِ عذاب نے الحاق کر دیا ہے۔

فتاویٰ حدیثیہ میں فرماتے ہیں:

وَإِيَّاكَ أَنْ تَغْتَرَّ بِمَا وَقَعَ فِي الغُنْيَةِ لِإِمَامِ الْعَارِفِينَ وَقُطْبِ الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ الْأُسْتَاذِ عَبْدِ الْقَادِرِ الْجِيلَانِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَإِنَّهُ دَسَّهُ عَلَيْهِ فِيهَا مَنْ سَيَنْتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ، وَإِلَّا فَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ذَلِكَ۔

ترجمہ: یعنی خبردار! دھوکا نہ کھانا اس سے جو امام الاولیاء، سردارِ اسلام و مسلمین، حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غنیہ میں واقع ہوا، کہ اس کتاب میں اسے حضور پر افترا کر کے ایسے شخص نے بڑھا دیا ہے کہ عنقریب اللہ عزوجل اس سے بدلہ لے گا۔ حضرت شیخ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے بری ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ج: 29، ص: 222، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مذکورہ بالا تحریر سے یہ تو متعین ہوگیا کہ غنیۃ الطالبین حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف کردہ ہے۔

رہی یہ بات کہ آپ نے غنیۃ میں حنفیہ کو گمراہ لکھا ہے، تو اس سے وہ فرقہ مراد ہے جو مذہباً اپنے آپ کو حنفی کہلاتا ہے، لیکن مسلکاً اہلِ سنت و جماعت سے خارج ہے، جیسے معتزلی اور دورِ حاضر کے وہابی وغیرہ۔ (ماخوذ: مرجع سابق)

حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عقیدت رکھنے والوں کو اہلِ حدیث فرقہ یہ دھوکہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حضور غوثِ پاک تو رفعِ یدین کرتے تھے، جیساکہ آپ کی تصنیف سے پتہ چلتا ہے، پھر آپ لوگ قادری ہوتے ہوئے رفعِ یدین کیوں نہیں کرتے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور غوثِ پاک مسلکِ حنابلہ اور شافعیہ پر فتویٰ دیتے تھے اور آپ خود فقہ میں امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد تھے۔

بایں سبب یہ اعتراض بنتا ہی نہیں ہے کہ حنفیہ رفعِ یدین کیوں نہیں کرتے، کیونکہ جیسے آپ حنبلی المذہب ہیں، ویسے ہم بھی حنفی المذہب ہیں۔ رہی نسبت جو آپ سے ہماری ہے، وہ از راہِ بیعت و ارادت ہے، نہ کہ از راہِ تقلیدِ مذہب۔

حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غنیۃ الطالبین میں شریعت و طریقت دونوں کے مسائل کو بیان فرمایا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور راہِ سلوک کے مسافروں کے لیے منزلِ مقصود کے نشانات ہیں۔

غنیہ کے آغاز میں مسائلِ شرع کو باقاعدہ کتاب در کتاب اور فصل در فصل بیان فرمایا ہے۔ مثلاً آپ نے آغاز میں نماز کے متعلق فصل قائم کرتے ہوئے فرمایا: «فصل فی انہ اذا کلمت ھذہ الشروط دخل فی الصلاۃ۔»

اس کے بعد یکے بعد دیگرے کتاب الزکاۃ، کتاب الصیام، کتاب الاعتکاف اور کتاب الحج کے بعد کتاب الآداب کے ضمن میں آپ نے تصوف، سلوک، طریقت اور معرفت کے پیچیدہ سے پیچیدہ اور دقیق سے دقیق مسائل بیان کیے ہیں۔ مثلاً آپ نے فصل قائم کیا:

◽«ما التصوف وما الصوفی»

◽«باب فیما یجب علی المبتدی فی ھذہ الطریقۃ أولاً»

◽«فصل من آداب الشیخ و من آداب المرید»

◽«فصل فی آداب العشرۃ»

صبر، شکر، رضاے الہٰی، توکل اور حسنِ خلق کے متعلق بھی انمول موتیوں کا خزانہ لٹایا ہے اور اس کے تمام گوشوں کو بھی بیان فرمایا ہے۔ آپ نے وقتاً فوقتاً آیاتِ قرآنیہ کی تفاسیر اور احادیثِ مبارکہ کی تشریحات بھی بیان فرمائی ہیں۔

فتوح الغیب: آپ نے اس کتاب میں تصوف کے اوصاف اور لوازمات کو بیان فرمایا ہے۔ یہ تصنیف مقالے کی شکل میں ہے، جس میں تقریباً 80 مقالے مندرج ہیں۔

کتاب کے عنوانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے کتنے اہم نکات و نادر بیانات کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ ذیل میں چند مختلف موضوعات کو بطورِ نمونہ پیش کیا جاتا ہے:
◽ مؤمن کی صفات ◽ دنیا کی حقیقت ◽ نعمت اور آزمائش ◽ فنا اور بقا ◽ تسلیم و رضا ◽ خوف و رجا ◽ تصوف اور حقیقتِ فقر ◽ دعا کی قبولیت میں تاخیر کا سبب ◽ کائنات کی ہر شے توحیدِ الہی پر دلیل ہے۔

یہ چند مختلف موضوعات ہیں، جن سے اس کے نایاب مضامین پر مشتمل ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ علامہ محمد عبدالاحد قادری نے کیا ہے، جو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالی عنہ کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے اور آپ کے دریاے علم و معرفت سے چند قطرے عطا فرمائے۔

سر الأسرار: آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب کو کلمہ طیبہ کے ۲۴/ حروف اور شب و روز کے ۲۴/ گھنٹوں کے مطابق ایک مقدمہ اور ۲۴/ فصلوں پر مرتب کیا ہے۔ مقدمہ میں "تخلیق کائنات کا آغاز" کے موضوع پر بحث فرمایا ہے اور اس کے تحت نور، عقل، قلم، علم ظاہر و باطن اور معرفت کی قسمیں کو بیان فرمایا ہے۔ آپ کی یہ کتاب چوں کہ ۲۴/ فصلوں پر مرتب ہے، اس لیے یہاں چند مختلف فصلوں کو پیش کیا گیا ہے‌۔ جس سے کتاب پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جاسکتی ہے۔

فصل: انسان اور وطن اصلی، فصل: اجسام و ارواح، فصل: توبہ و تلقین، فصل: ذکر و اذکار، فصل: سعادت و شقاوت، فصل: طہارت و نظامت، فصل: زکاۃ شریعت و طریقت، فصل: حج شریعت و طریقت، فصل: وجد اور طہارت قلبی، فصل: خلوت گزینی اور گوشہ نشینی، فصل: احوال اہل تصوف۔ یہ مختلف فصلیں ہیں۔ جو کتاب کی اہمیت کو اجاگر کررہی ہیں۔

اس کتاب کا ترجمہ علامہ محمد منشا تابش قصوری، مدرس:جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور نے کیا ہے۔ جوقادری رضوی کتب خانہ لاہور سے شائع ہوچکی ہے اور مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

الفتح الربانی: یہ کتاب آپ کی مختلف مجالس میں بیان کی گئی تقاریر اور پند و نصائح کا مجموعہ ہے۔ اسلوبِ بیان انتہائی مؤثر اور جاذب ہے۔ دورانِ مطالعہ قاری ایسے محسوس کرتاہے گویا کہ آپ براہ راست گفتگو فرمارہے ہیں۔

آپ کا انداز تخاطب اتنا با رعب ہے کہ آپ کے فرمودات کا اثر قلب پر نقش ہوتا چلاجاتا ہے۔ باب تصوف میں آپ کی یہ کتاب بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں کل ۶۲/ مجالس ہیں جن میں آپ نے مختلف موضوعات پر گفتگو فرمائی ہے، ان میں سے چند ایک ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

لا الہ الااللہ کی فضیلت، توحید، صبر، فقر، توبہ، فکر آخرت، قضاے الہٰی پر راضی رہنا، اتباعِ سنت، دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ ہے، خوف الہٰی، عمل بالاخلاص، دنیا سے بے رغبتی، نعمتِ خدا پر شکر، روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کا دیدار، دنیا پر آخرت کو ترجیح دینا، نفسِ امارہ، عمل بالقرآن، تفقہ فی الدین اور انسان کا لایعنی چیزوں کو ترک کردینا اس کے علاوہ اور بھی بیش قیمت علم و حکمت، آداب و احترام اور شریعت و طریقت کے انمول موتیاں لٹائے ہیں۔ اس کا بھی اردو ترجمہ ہوگیا ہے، جو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

ان کے علاوہ اور بھی کئی ایک کتابیں آپ کی تصنیف کردہ ہیں؛ جن میں آداب السلوک، بشائر الخیرات، رسالۃ الغوثیہ، مراتب الوجود اور یواقیت الحکم وغیرہ بھی شامل ہیں۔ دورِ حاضر کے متصوفین نے تصوف کو جس طرح بدنام کردیا ہے اور اپنی بدعنوانی اور بددیانتی کی وجہ سے تصوف و طریقت اور معرفت کا جو بدنما چہرہ پیش کیا ہے، لوگ اس سے بدگمان ہو رہے ہیں، ایسے پُر خطر اور پُرفتن دور میں آپ کی ان تصنیفات کا مطالعہ انتہائی ناگزیر ہے۔

آپ نے اپنی ان تصانیف میں علم عقائد، علم فقہ، علم تفسیر، علم تصوف اور اداب و سلوک کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا ہے؛ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ علم شریعت و طریقت الگ الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ علم شریعت پر عمل پیرا ہونا دراصل یہی علم تصوف ہے۔ علم عقائد اور علم فقہ سے نا بلد ہو کر اگر کوئی علم تصوف کا ڈھونگ رچاتا ہے تو وہ جاہل ہے اس کا تصوف و طریقت اور معرفت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آمین یارب العالمین بجاہِ النبی الامین ﷺ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں