✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

عقیدہ کی اہمیت

عنوان: عقیدہ کی اہمیت
تحریر: احمد رضا رضوی

عقیدہ اسلام کی بنیاد ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے عقیدہ کے مفہوم کو سمجھنا پڑے گا۔

عقیدہ کا لغوی اعتبار سے معنی ہوتا ہے گرہ لگانا، دو رسیوں کو آپس میں باندھ دینا، جس سے دونوں کے درمیان مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔ کچھ اسی طرح عقیدہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں کامل اور پختہ یقین رکھتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں شخص کا عقیدہ ہے۔

مثال کے طور پر: مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ ایک ہے، تو اسے کہا جائے گا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ خلاصہ یہ کہ پختہ یقین کو ہی عقیدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور صحیح عقیدہ رکھنے والا شخص حقیقی مؤمِن، یعنی ایمان والا ہوتا ہے۔

قرآنِ پاک میں جگہ جگہ جنت کا تذکرہ موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایمان والوں کا بھی ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کا مدار عمل کے بجائے ایمان پر ہے۔

اللہ پاک سورہ لقمان، آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ (لقمان:8)

ترجمہ کنز الایمان: بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، اُن کے لیے چین کے باغ ہیں۔

اس آیت میں پہلے ایمان اور پھر اچھے کاموں کا ذکر ہے، جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اعمالِ حسنہ اسی وقت مقبولِ بارگاہ ہوں گے، جب ایمان کے ساتھ کئے جائیں۔ بغیر ایمان کے اچھے کام کا ثواب نہیں ملتا۔ اس اچھے کام کا بدلہ اسے دنیا ہی میں دے دیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ہمیشگی والے عذاب میں گرفتار ہوگا۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بندہ نیک عمل کرے، غریبوں کی امداد کرے، بھوکوں کو کھانا کھلائے، اپنا سرمایہ لوگوں کی بھلائی کے لیے خرچ کرے، مسجدوں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے، پھر بھی اس کے اعمال قابلِ قبول نہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

ان کے خیال میں صرف اچھے اعمال ہی نجات کے لیے کافی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ سارے اچھے کام اللہ کی ذات اور آخرت پر ایمان لانے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔

سورۂ توبہ، آیت نمبر 19 میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (توبہ:19)

ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تم نے حاجیوں کی سبیل اور مسجدِ حرام کی خدمت اس کے برابر ٹھہرا لی، جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا؟ وہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں، اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا۔

اللہ پاک نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد تعمیر کرانے کے مقابلے میں، اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے کو رکھا، اور فرمایا کہ یہ دونوں اللہ کے یہاں برابر نہیں ہو سکتے۔

عقلاً بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر نہیں، کیونکہ بندہ اگر ریاکاری کرتے ہوئے نیک اعمال بجا لائے، تو نہ دین اسے معتبر سمجھتا ہے، نہ عقل و فہم اسے سچا عمل مانتے ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ عقیدہ کے ساتھ بھی ہے۔

نیز بعض لوگ یہ بھی شوشہ چھوڑ کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ:ایک بات ہی پر تو ایمان نہیں ہے، باقی سب تو تسلیم ہے، صرف ایک بات کے نہ ماننے سے کوئی بندہ دائرۂ اسلام سے کیسے خارج ہو سکتا ہے؟ آیئے! اس کا بھی جواب ہم قرآنِ پاک سے لیتے ہیں۔

سورہ نساء، آیت نمبر 136 میں اللہ پاک فرماتا ہے:

وَمَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓىٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا (نساء: 136)

ترجمہ کنز الایمان: اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو، تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا۔

اس آیتِ کریمہ میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے۔ اگر کوئی شخص چار کو مانے اور پانچویں چیز کو نہ مانے، تو کیا یہ قرآنِ پاک کی تکذیب نہیں ہوگی؟ اور قرآنِ پاک کو جھٹلانا، خدا کو جھٹلانا ہے۔

دیکھیے! صرف ایک چیز کے جھٹلانے سے خدا کو جھٹلانا لازم آ رہا ہے۔ اسی طرح سے ضروریاتِ دین میں سے کسی بھی ایک چیز کا انکار کفر ہے۔

ذہن کو اور زیادہ قریب کرنے کے لیے ایک مثال سے سمجھیے کہ: ہمارا ملک ہندوستان کا اپنا ایک آئین ہے، اس میں کئی سارے قوانین لکھے ہوئے ہیں۔ اب کوئی ہندوستانی شخص، سوائے ایک قانون کے، سب پر عمل کرے، اور اس ایک قانون کا انکار کرتے ہوئے اس کی مخالفت بھی کرے، تو ایسے شخص کے ساتھ حکومت کا ردِ عمل اس قانون پر زبردستی عمل کروانا ہوگا یا پھر اس کی شہریت ہی مسترد کر دی جائے گی۔

تو جب ملک کے قانون کو نہ ماننے کی صورت میں شہریت چھینی جا سکتی ہے، تو خدا کے قانون کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج کیوں نہیں ہو سکتا؟ ان تمام باتوں سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں عقیدہ کو کس قدر بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے قرآن و سنت میں جابجا عقیدہ پر زور دیا گیا ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر ایمان کے بندہ نجاتِ ابدی نہیں پا سکتا۔

اللہ پاک ہمیں دینی شعور عطا فرمائے، اور ایمان پر استقامت اور اسی پر موت عطا فرمائے۔ آمین، بجاہِ خاتم النبیین ﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں