عنوان: | مدینہ منورہ میں سیرت رسول کا مطالعہ |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
ہر امتی کی ذمہ داری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سیرت سے آگاہی حاصل کرے، ان کی زندگی کے خوبصورت اوراق کا مطالعہ کرے، اور اپنی زندگی کو ان کی حسین زندگی کا عملی نمونہ بنائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر امتی کے لیے رول ماڈل ہے، جسے دیکھ کر ہمیں اتباع کا حکم ہے۔
چناں چہ رب تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : 21)
ترجمہ کنز الایمان : بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
مفتی اہلِ سنت، مفتی قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ، اپنی شہرۂ آفاق تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں :
یاد رہے کہ عبادات، معاملات، اَخلاقیات، سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے میں، اور نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی اور سیرت میں ایک کامل نمونہ موجود ہے۔
لہٰذا ہر ایک کو، اور بطورِ خاص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اَقوال میں، اَفعال میں، اَخلاق میں اور اپنے دیگر احوال میں سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں، اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں سیّدُ العالَمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں۔
لہٰذا سیرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آگاہی کا بہترین طریقہ آپ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرنا ہے۔ ابتدائی دور سے لے کر آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ طیبہ، اوصاف و کمالات، معجزات و اخلاق پر کتابیں لکھی جاتی رہی ہیں، اور اِن شاءاللہ تعالیٰ یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
ہم سب کو بھی چاہئے کہ ایک امتی ہونے کی وجہ سے اپنے نبی کی سیرت کا مطالعہ کریں، ان کے احوال و واقعات سے با خبر ہوں۔ اس سے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق و عادات، حسن و جمال، معجزات و کمالات، عبادات اور روزمرہ کے معمولات کا علم ہوگا، وہیں آپ کی محبت میں بھی حد درجہ اضافہ ہوگا، اور آپ کی اتباع کرنے کا ذہن بنے گا۔
ویسے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں، آپ کی سیرت پڑھنے کا ایک الگ لطف ہے، مگر یقین جانیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک مدینہ منورہ میں پڑھنے کا جو مزہ ہے، وہ کائنات میں کہیں اور نہیں۔ یہاں پر سیرتِ رسول کے مطالعہ میں کیفیت ہی کچھ الگ ہوتی ہے۔
اب بندہ گنبدِ خضراء کے سامنے بیٹھ کر کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو پڑھ رہا ہے، کبھی عبادات کا تذکرہ پڑھ رہا ہے۔ جب کفار کے ظلم و ستم کے واقعات پڑھتا ہے، گنبدِ خضراء پر نظر ڈالتا ہے، آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے ہمارے لیے اتنی تکلیفیں برداشت کیں۔
کبھی غزوات کا ذکر پڑھتا ہے، اور کبھی آپ کے خوفِ خدا اور گریہ و زاری کو پڑھ کر خود رونے لگتا ہے۔ اس میں جو مزہ ہے شاید وہ کہیں اور نہیں۔ سیرت پڑھتے پڑھتے بار بار گنبدِ خضراء کی طرف نظر اٹھتی ہے کہ میں جس ذاتِ والا کی سیرت پڑھ رہا ہوں، یہ وہی آقا ہیں، جن کے پاس میں موجود ہوں۔
ہمارے مشفق استاذ، مفتی وسیم اکرم مصباحی صاحب نے سفرِ مدینہ سے قبل یہ ترغیب ارشاد فرمائی تھی کہ: مدینہ منورہ میں خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں۔
الحمدللہ ربّ العالمین! اس سے قبل حاضری میں مکتبۃ المدینہ کی سیرتِ رسول پر مشتمل مختصر کتاب، بنام آخری نبی ﷺ کی پیاری سیرت پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، جسے پڑھ کر بڑا لطف ملا تھا۔ اسی وقت نیت بنی تھی کہ جب بھی مدینہ منورہ حاضری ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کسی نہ کسی کتاب کا ضرور مطالعہ کریں گے۔
الحمدللہ! اس مرتبہ حاضری کا شرف ملا، تو مکتبۃ المدینہ کی کتاب سیرتِ مصطفی جانِ رحمت رسول ﷺ کا مطالعہ کرنے کا شرف ملا۔ کیا لطف آیا پڑھنے میں، قابلِ بیان نہیں۔
جب آپ کی یہاں حاضری ہو، آپ پڑھ کر دیکھیں، اِن شاءاللہ الکریم دعائیں دیں گے کہ آپ نے بہت اچھا مشورہ دیا تھا۔
مدینہ منورہ میں سیرتِ طیبہ پڑھنے میں انسان تصورات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ جب مسجدِ نبوی کا ذکر آتا ہے، تو بندہ سوچتا ہے یہی تو وہ مسجد ہے۔ جب بارگاہِ اقدس کا ذکر آتا ہے، تو حضرت عائشہ کے گھر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جب صحابۂ کرام اور ان کے مقدس گھروں کا ذکر آتا ہے، تو مسجدِ نبوی کا صحن دیکھ کر بندہ سمجھتا ہے یہیں پر ان اصحاب کا گھر ہوتا ہوگا۔ اسی طرح مدینہ منورہ کی گلی گلی سے یادیں وابستہ ہیں۔ ان کو پڑھ کر ایک عجیب لطف ملتا ہے۔
کبھی جبلِ اُحد کے پاس جاکر، اُحد پہاڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جانا، اُحد پہاڑ کا وجد میں جھومنا پڑھتا ہے تو کبھی شُہداء اُحد کی بارگاہ میں بیٹھ کر جنگِ اُحد کا ذکر پڑھتا ہے اور کبھی مسجدِ قبلتین میں جاکر تحویل قبلہ کا واقعہ پڑھتا ہے۔ کبھی مسجدِ قبا میں جاکر یہ آیت یاد آتی ہے:
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ -فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ (التوبة: 108)
ترجمہ کنز الایمان: بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔ اس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اسی طرح مختلف یادگاروں کو دیکھ کر زمانۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جو حسین تصور قائم ہوتا ہے، وہ قابلِ بیان نہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو بار بار مدینہ منورہ میں حاضر ہو کر سیرتِ رسول ﷺ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ
یہ تحریر 7 شوال المکرم 1446ھ کو مدینہ منورہ کی مبارک فضاؤں میں لکھی گئی۔ {alertInfo}