عنوان: | نظامِ مدارس اور فارغین کی سرپرستی: ایک تقابلی نظر |
---|---|
تحریر: | عارف ابن عبد اللہ |
اہلِ سنت کے مدارس و جامعات کے ذمہ داران طلبا کی تعلیم و تربیت اچھے انداز میں کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں۔ رہائشی انتظام، درسی و خارجی کتابوں کا بندوبست، صلاحیت مند اساتذہ کا تقرر، عصری تقاضوں کے پیشِ نظر عمدہ ترین نصابِ تعلیم، بعض جگہوں پر وظائف کا اہتمام ہوتا ہے۔
طلبائے کرام کی ابتدا سے انتہا تک کی رہبری کی جاتی ہے، جو کہ ذہن سازی کی بہترین مثال ہے۔ مگر ذمہ دارانِ مدارس کو فراغت کے بعد بھی فارغین کی خبر گیری کرنی چاہیے: وہ کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ کیا خدمت سرانجام دے رہے ہیں؟
یہ ایک ضروری امر ہے کہ فارغ التحصیل طلباء کا ایک ریکارڈ رکھا جائے، جس میں ان کا مسکن، موبائل نمبر وغیرہ رہے۔ سال کے درمیان دو چار دفعہ ان کی خبر گیری کی جائے، اور کارگزاری کے حوالے سے سوالات کیے جائیں۔
فارغ شدہ افراد اگر مشکلات میں ہوں، تو ان کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ممکن ہو سکے تو جن کی تنخواہیں کم ہوں، ان کے لیے وظیفہ بھی جاری کیا جائے۔ ان سب سے جدید فارغین کی حوصلہ افزائی، جو کہ دن بدن پست ہوتا جا رہا ہے، بلند ہو گا۔ پھر ذمہ داران یا اساتذہ ان سے خدمت لینا چاہیں گے، تو وہ لبیک کہتے ہوئے سرِ تسلیم خم کرتے نظر آئیں گے۔
اور ہونا تو یہی چاہیے کہ مدرسے کے قریب، یا جہاں گمراہیت ابھی اپنا سر اٹھا رہی ہو، ایسی جگہوں پر ہی نو فارغین کو خدمتِ دین کا موقع فراہم کرایا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ معاشرے میں گہرے اثرات نمودار ہوں گے، اور مذہب و مسلک کی تبلیغ و اشاعت بھی بآسانی ہوتی رہے گی۔
ہندوستان کے مشہور صوبہ مہاراشٹرا میں دیابنہ کی بیماری، جو گلی گلی، کوچے کوچے میں پھیل چکی ہے، اس کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ دیوبندیوں کا مرکز اکل کوا نامی مدرسہ الجامعۃ الاسلامیہ اشاعت الاسلام نے اپنے فارغ شدہ طلبہ کا عزم و حوصلہ اس طور پر بڑھایا ہے کہ مدرسہ ہذا کے اراکین ان کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں، اور جن کی تنخواہیں کم ہیں، ان کے لیے والیانِ مدرسہ نے وظائف کا انتظام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے، اس صوبے میں تیزی کے ساتھ گمراہیت بڑھ رہی ہے۔
اے کاش! ہمارے اہلِ سنت کے جدید فارغین کے لیے بھی کچھ ایسا نظم و ضبط ہوتا!