✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

سیرتِ امام بخاری علیہ الرحمہ

عنوان: سیرت امام بخاری علیہ الرحمہ
تحریر: محمد کامران رضا مھلیج، گجرات،

نام و نسبت

اسمِ گرامی محمد، کنیت ابو عبد اللہ، لقب امیر المؤمنین فی الحدیث، حافظ الحدیث، ناصر الأحاديث النبویہ، سید الفقہاء و المحدثین، امام المسلمین۔ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے: محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ بخاری جعفی۔ آپ کے جدِّ اعلیٰ مغیرہ نے حاکمِ بخارا ایمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، اس لیے آپ کو جعفی کہا جاتا ہے۔

ولادت

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولاددت 13 شوال 194ھ، جمعہ کے روز (ازبکستان کے ایک شہر) بخارا میں ہوئی۔ (نزھۃ القاری: جلد،1صفحہ،50)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد

امام بخاری علیہ الرحمہ کے والدِ محترم حضرت اسماعیل بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور ولی کامل حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے صحبت یافتہ تھے۔

ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ اپنے مال و دولت کو شبہات (ایسی چیزیں جن کے حلال یا حرام ہونے میں شبہ ہو) سے بچاتے۔ انتقال شریف کے وقت آپ نے ارشاد فرمایا: میرے پاس جس قدر مال ہے، میرے علم کے مطابق اس میں ایک بھی شبہ والا درہم نہیں۔ (ارشاد الساری:جلد،1 صفحہ،45)

بینائی لوٹ آئی

امام بخاری علیہ الرحمہ کے والد صاحب کا انتقال آپ کے بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ امام بخاری ایامِ طفلی میں نابینا ہو گئے تھے، جس کے باعث والدہ کو بے پناہ قلق رہا کرتا تھا اور وہ بارگاہِ قاضی الحاجات میں انتہائی تضرع و زاری کے ساتھ لختِ جگر کی بینائی کے لیے دعا کیا کرتی تھیں۔

چنانچہ دعا قبول ہوئی اور انہوں نے ایک شب خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تیری گریہ و زاری و دعا کے سبب تیرے فرزند کو بصارت عطا فرمائی۔ صبح کو بیدار ہوئیں تو نورِ نظر کی آنکھوں کو روشن و منور پایا۔ (بستان المحدثین:صفحہ، 171)

تحصیلِ علم

بخارا میں رسمی تعلیم کے بعد صغر سنی میں ہی حدیث کی تحصیل کی جانب متوجہ ہوئے اور دس سال کی عمر میں امام داخلی کے حلقۂ درس میں شریک ہونے لگے اور اپنی خداداد قوتِ حفظ و ضبط سے حدیثوں کی اسناد و متون کو ذہن میں محفوظ کرنے لگے۔

اسی زمانے کی بات ہے، ایک بار امام داخلی نے درسِ حدیث میں فرمایا: سفیان عن ابی زبیر عن ابراہیم ۔ امام بخاری نے کہا کہ حضرت ابو زبیر تو ابراہیم سے روایت نہیں کرتے۔ تو امام داخلی نے تسلیم نہیں کیا۔ امام بخاری نے عرض کی: اسے اصل نسخہ میں دیکھنا چاہئے۔

چنانچہ امام داخلی نے جب اصل نسخہ ملاحظہ کیا، باہر تشریف لا کر فرمایا: اس لڑکے کو بلاؤ! جب امام بخاری حاضر ہوئے تو فرمایا: میں نے اس وقت جو پڑھا تھا، بے شک وہ غلط نکلا۔ اب آپ بتائیں، صحیح کیا ہے؟ امام بخاری نے کہا: صحیح سفیان عن الزبیر بن عدی عن ابراہیم ہے۔ امام داخلی نے حیران ہو کر کہا: واقعی ایسا ہی ہے۔ (بستان المحدثین:صفحہ، 171)

۲۱۰ھ میں اپنی والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ حج کے لیے حجاز کا سفر کیا۔ فراغتِ حج کے بعد والدہ اور بھائی تو بخارا واپس لوٹے، مگر امام بخاری علیہ الرحمہ طلبِ حدیث کے لیے حجاز ہی میں مقیم ہو گئے اور وہاں کے شیوخِ حدیث سے استفادہ کرتے رہے۔

آپ نے طلب و جستجوئے حدیث کے لیے بخارا اور حجاز ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ برسہا برس وطن سے دور دیارِ غربت کی خاک چھانتے رہے اور علم و فن کے جواہرات سے جھولیاں بھرتے رہے۔ خود فرماتے ہیں: میں شام، مصر اور جزیرہ دوبار گیا اور بصرہ کا سفر چار مرتبہ کیا، اور حجازِ مقدس میں چھ سال سکونت گزیں رہا۔ بیشمار بار کوفہ و بغداد گیا اور محدثین کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا۔ (الحدیث والمحدثون: صفحہ،354)

آپ کے اساتذہ

امام بخاری علیہ الرحمہ نے علمی بلاد و امصار کے بکثرت سفر کیے، وہاں کے ایک ہزار شیوخِ حدیث سے سماعِ حدیث کیا اور حدیثیں لکھیں۔ خود فرماتے ہیں:میں نے ایک ہزار شیوخ سے حدیثیں لکھیں، میرے پاس کوئی ایسی حدیث نہیں جس کی سند مجھے ازبر نہ ہو۔

اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ کے شیوخ کی تعداد ایک ہزار تھی، مگر سیر و تذکرہ کی کتابوں میں ان خاص خاص اور اہم شیوخ ہی کے نام ملتے ہیں: عبید اللہ بن موسیٰ، محمد بن عبد الله انصاری، عفان، ابو عاصم نبیل، مکی بن ابراہیم، ابو مغیرہ، ابو مسہر، احمد بن خالد وہبی، محمد بن سلام سندی، محمد بن یوسف، عمر بن عاصم، عبد الله بن صالح، ابو نعیم، وغیرہ۔ (محدثینِ عظام حیات و خدمات: صفحہ:308)

قوتِ حافظہ

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس کتاب کو ایک نظر دیکھ لیتے تھے، وہ انہیں یاد ہو جاتی تھی۔ تحصیلِ علم کے ابتدائی دور میں انہیں 70 ہزار احادیث زبانی یاد تھیں اور بعد میں جا کر یہ تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی۔

ایک مرتبہ حضرت سلیمان بن مجاہد رحمۃ اللہ علیہ، حضرت محمد بن سلام رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت محمد بن سلام رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے فرمایا: اگر آپ کچھ دیر پہلے آجاتے تو میں آپ کو وہ بچہ دکھاتا جو 70 ہزار حدیثوں کا حافظ ہے۔ یہ حیرت انگیز بات سُن کر حضرت سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں امام بخاری علیہ الرحمہ سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔

چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے فارغ ہونے کے بعد، حضرت سلیمان بن مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جب ملاقات ہوئی تو حضرت سلیمان بن مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: کیا 70 ہزار احادیث کے حافظ آپ ہی ہیں؟

یہ سن کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جی ہاں! میں ہی وہ حافظ ہوں، بلکہ مجھے اس سے بھی زیادہ احادیث یاد ہیں، اور جن صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور تابعین سے میں حدیث روایت کرتا ہوں، اُن میں سے اکثر کی تاریخِ پیدائش، رہائش اور تاریخِ انتقال کو بھی میں جانتا ہوں۔ (ارشاد الساری:جلد،1 صفحہ: 48)

با کمال قوتِ حافظہ

حضرت محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں: میں نے حاشد بن اسماعیل اور ایک دوسرے بزرگ سے سنا، وہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چھوٹی عمر میں ہمارے ساتھ علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے بصرہ کے علمائے کرام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ ہم تمام ساتھی احادیث کو محفوظ کرنے کے لیے تحریر کر لیتے تھے۔

سولہ دن گزر جانے کے بعد، ایک دن ہم نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو ڈانٹا کہ آپ نے احادیث محفوظ نہ کر کے اتنے دنوں کی محنت ضائع کر دی۔ یہ سن کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہم سے ارشاد فرمایا: اچھا، تم اپنے لکھے ہوئے صفحات لے آؤ۔ چنانچہ ہم اپنے اپنے صفحات لے آئے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احادیثِ مبارکہ زبانی سنانی شروع کر دیں، یہاں تک کہ انہوں نے پندرہ ہزار (15000) سے زیادہ احادیث زبانی بیان کر دیں، جنہیں سن کر ہمیں یوں گمان ہوتا تھا کہ گویا ہمیں یہ روایات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہی لکھوائی ہیں۔ (فتح الباری: جلد:1، صفحہ،11)

حلقۂ درس و تلامذہ

دورِ تحصیلِ علم ہی میں امام بخاری علیہ الرحمہ کی عبقری صلاحیت، حفظ و ضبط، ذہانت و طبّاعی، کثرتِ علم کا شہرہ دُور دُور تک پھیل گیا تھا۔ جب آپ نے حلقۂ درس قائم کیا اور مسندِ تدریس کو رونق بخشی تو صرف عام طالبانِ حدیث ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے محدثین، جن کے گرد تلامذہ کا حلقہ ہوا کرتا تھا، آپ کی بارگاہ میں نیاز مندانہ حاضر ہوتے اور آپ کے درس سے مستفید ہوتے۔

جو لوگ فضل و کمال کے اعتبار سے خود امامِ فن کی حیثیت رکھتے، ان کے کسی مجموعۂ حدیث کو امام صاحب صحیح تسلیم کرتے تو فخریہ لہجے میں کہتے کہ ہماری ان حدیثوں کو محمد بن اسماعیل بخاری علیہ الرحمہ نے صحیح تسلیم کیا۔

طلبِ علم کے بعد امام بخاری علیہ الرحمہ نے اشاعتِ حدیث کے لیے بصرہ، بغداد، نیشاپور، سمرقند، بخارا میں درسِ حدیث کے لیے حلقے قائم کیے اور لاکھوں تشنگانِ علم کو آسودہ کیا۔ آپ کی درسگاہ سے فیض پانے والوں کی تعداد ایک لاکھ بتائی جاتی ہے۔ آپ سے اصاغر، معاصر، اکابر افراد کے علاوہ خود آپ کے شیوخ نے بھی سماعِ حدیث کیا۔

چند مشہور تلامذہ و سامعین یہ ہیں: نسائی، ابو زرعہ، ابو حاتم، ابراہیم حربی، ابنِ ابی دنیا، صالح بن محمد اسدی، محمد بن عبد اللہ حضرمی، قاسم بن زکریا، ابنِ ابی عاصم، ابنِ خزیمہ، عمیر بن محمد بن بجیر، حسین بن محمد قبانی، ابو عمرو خفاف نیشاپوری، عبد اللہ بن ناجیہ، فضل بن عباس رازی، ابو بکر بن ابی داؤد، ابو محمد بن ماعد وغیرہ۔ (محدثینِ عظام حیات و خدمات: صفحہ، 316)

سیرت و کردار

حضرت سیدنا امام بخاری علیہ الرحمہ نہایت عبادت گزار، پرہیزگار اور زہد و تقویٰ کے مالک تھے۔ درسِ حدیث کے بعد باقی تمام وقت کثرتِ نوافل و تلاوتِ قرآنِ پاک میں صرف کرتے۔ آپ علیہ الرحمہ نے تمام عمر کبھی کسی کی غیبت نہیں کی اور نہ کبھی اپنی ذات کا کسی سے انتقام لیا۔ آپ علیہ الرحمہ نہایت سادہ اور زاہدانہ طبیعت کے مالک تھے۔

دورِ طالبِ علمی میں سوکھی گھاس یا چوبیس گھنٹوں میں دو یا تین بادام کھا کر گزارا کرتے۔ 40 سال تک بغیر شوربے کے سوکھی روٹی تناول فرمائی۔ ہمیشہ نہایت قلیل خوراک لیتے، کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتے۔ کبھی دنیاوی عیش و عشرت قبول نہ کی۔ نہایت جفاکش تھے۔ اپنا تمام کام خود کیا کرتے تھے، حالانکہ میراث میں کثیر دولت پائی تھی مگر کبھی جاہ و حشمت و مرتبت پسند نہ کیا۔

آپ علیہ الرحمہ نہایت فیاض (بڑے سخی) تھے۔ کبھی کبھی ایک دن میں 3،3 سو درہم صدقہ کر دیا کرتے۔ حضرت سیدنا امام بخاری علیہ الرحمہ کی ماہانہ آمدنی 500 درہم تھی، یہ تمام رقم آپ علیہ الرحمہ طلبہ پر خرچ کرتے۔ سادگی کا یہ عالم کہ طالبِ علمی کے دور میں اگر گھر سے رقم آنے میں تاخیر ہو جاتی تو زمین کی گھاس کھا کر گزارا کر لیتے، مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہ فرماتے اور نہ ہی بطورِ قرض کسی سے کچھ مانگتے۔ (گلستانِ محدثین: صفحہ، 98)

تلاوتِ قرآن سے محبت

پیارے اسلامی بھائیو! قرآن سے محبت کرنا اللہ پاک سے محبت کرنے اور اس کا محبوب بندہ بننے کا ذریعہ ہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں غور و فکر کرنا بھی عبادت ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی جب قرآن پڑھتے تو اپنے دل، نگاہ اور سماعت کو اس میں مشغول رکھتے، قرآن میں بیان کردہ مثالوں میں غور و فکر کرتے اور حلال و حرام کے بارے میں جانا کرتے تھے۔ نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ رمضان المبارک میں ہر روز ایک قرآن پاک کا ختم کرتے اور تین راتوں میں ایک ختمِ قرآن کرتے، یعنی روزانہ رات میں دس پاروں کی تلاوت کرتے تھے۔ (مقدمہ ضیاء القاری: جلد، 1، صفحہ،257)

بارگاہِ رسالت میں امام بخاری کا مقام

حضرت نجم بن فضیل رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے: میں نے خواب میں حضور ﷺ کی زیارت کی، آپ نے فرمایا: کہاں جا رہے ہو؟ میں عرض گزار ہوا: میں محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میری طرف سے ان کو سلام کہنا۔ (مقدمہ ضیاء القاری: جلد، 1، صفحہ،257)

تصانیفِ امام بخاری

امام بخاری علیہ الرحمہ نے طلبِ علمِ حدیث کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی خاطر خواہ خدمات سر انجام دیں اور متعدد قابلِ قدر تصانیف کا ذخیرہ چھوڑا۔ بعض کے نام یہ ہیں:

(1) الجامع الصحیح (2) التاریخ الکبیر (3) التاریخ الاوسط (4) التاریخ الصغیر (5) کتاب الضعفاء (6) کتاب الکنی (7) الادب المفرد (8) جزء رفع الیدین (9) جزء القراءۃ خلف الامام (10) کتاب الاشربۃ (11) کتاب الھبۃ (12) کتاب العلل (13) بر الوالدین (14) الجامع الکبیر (15) التفسیر الکبیر (16) المسند الکبیر (17) خلق افعال العباد (18) قضایا الصحابۃ و التابعین (19) کتاب الوحدان (20) کتاب المبسوط (21) کتاب الفوائد (22) اسامی الصحابہ (منحۃ الباری حل صحیح بخاری: صفحہ، 24)

بخاری شریف کی مقبولیت

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یوں تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتابیں لکھیں، لیکن جو مقبولیت و شہرت بخاری شریف کو ملی، اس قدر کسی اور کتاب کو حاصل نہ ہو سکی۔

امام ابو زید مروزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک مرتبہ مکہ پاک میں مقامِ ابراہیم اور حجرِ اسود کے درمیان سو رہا تھا کہ خواب میں اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی زیارت کی، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو زید! ہماری کتاب کا درس کیوں نہیں دیتے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میری جان آپ پر قربان! آپ کی کتاب کون سی ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: محمد بن اسماعیل کی کتاب بخری شریف۔ (فیضانِ امام بخاری: صفحہ،10)

محدثین کے تاثرات

حضراتِ علماء کرام کے نزدیک وہ انتہائی درجہ کے معظم و محترم تھے، حتیٰ کہ امام مسلم علیہ الرحمہ جب اُن کے پاس جاتے تو سلام کے بعد یہ خواہش کرتے کہ ان کے پاؤں کو بوسہ دیں اور حدیث کے طبیب، سید المحدثین کے القاب سے ان کو یاد کرتے تھے۔

امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا: میں نے امام بخاری کی مثل کوئی شخص نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس امت کی زینت بنا کع پیدا کیا ہے۔

حافظ ابو نعیم علیہ الرحمہ نے کہا: امام بخاری اس امت میں بہت بڑے فقیہ تھے۔ محمد بن بشار علیہ الرحمہ نے کہا: علمائے مکہ مکرمہ کہتے تھے کہ امام بخاری ہمارے امام و فقیہ اور خراسان کے فقیہ ہیں۔

ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے کہا: سقفِ سماء کے تحت حدیث کا عالم اور حافظ ان سے بڑا کوئی نہیں۔ بعض علماء نے کہا: امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ زمین پر چلتی پھرتی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ (تفہیم البخاری شرح بخاری: جلد 1، صفحہ،5)

وصالِ امام بخاری

یکم شوال المکرم 256ھ کو 62 سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔ ایک عرصے تک آپ کی قبرِ انور سے مشک و عنبر سے زیادہ عمدہ خوشبو آتی رہی۔ سمرقند (ازبکستان) کے قریب موضع خرتنگ میں آپ کا مزارِ فائض الانوار ہے۔ (مقدمہ ضیاء القاری: جلد، 1، صفحہ، 257)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں امام بخاری علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالامال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں